ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ گردوں کے امراض کی ایک بڑی وجہ بے آرامی بھی ہے۔بعض لوگ اس بات کا احساس نہیں کر سکتے کہ طبعی،جسمانی اور ذہنی کام کے بعد جسم کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔سر جیمز پیجٹ جو مشہور ماہر طب تھے انہوں نے تحریر کیا۔”اس دور میں بہت سے لوگوں کی موت اس تھکاوٹ سے ہوئی ہے جو تناؤ کی پیدا کردہ ہوتی ہے“۔تناؤ اور تھکن طبعی بھی ہوتا ہے اور ذہنی بھی۔جسم ایک مشین ہے اور دیگر مشینوں کی طرح سے اگر اسے آرام نہ دیا جائے تو اس کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے ۔اکثر مصروف لوگوں کی جسمانی کار کردگی آرام کے لیے وقت کی کمی اور تھکن کے باعث متاثر ہوتی ہے۔
جسمانی کا رکردگی میں کمی اور تھکن کا احساس اعصابی کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو گا”میں تو تھکن سے چور ہو گیا ہوں“یہ جملہ وہ اس وقت کہتے سنائی دیتے ہیں جبکہ دن کو ختم ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی رہتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگ ذرا ذرا سی بات پر چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کسی ادارے کے ایک عام کارکن کو چھوڑیے بعض افسر بھی شام کو گھر پلٹتے ہیں تو کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔کاروباری حضرات دن بھر پیسوں میں کھیلتے ہیں،لیکن وہ بھی شام کو دنیا سے بے زار معلوم ہوتے ہیں ۔خواتین گھروں میں تھکی تھکی معلوم ہوتی ہیں۔اسکول ٹیچر دن بھر بچوں کے ساتھ سر کھپانے کے بعد شام کو کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے،کالج کے پروفیسر اس بات سے پریشان رہتے ہیں کہ وہ دن بھر لیکچر دیتے دیتے تھک جاتے ہیں اور ان کے طلبہ موٹی موٹی کتابوں کو پڑھ پڑھ کر تھکتے رہتے ہیں․․․․
اگر غور سے دیکھا جائے تو بہت سے واقعات کی محرک اعصابی تھکان ہے۔انسان کو خدا جانے کیا ہو جاتا ہے کہ آن کی آن میں اپنے حواس کھو کر ایسے عمل کا مر تکب ہوتا جاتا ہے ،جس کی توقع ہر گزاس سے نہیں کی جا سکتی تھی۔اعصابی تھکان پیدا کرنے اور اسے بڑھانے کی ذمہ داری بڑی حد تک خود پر عائد ہوتی ہے ،ورنہ قدرتی طور پر ادراک ہو جاتا ہے کہ اب اعصاب تھکن محسوس کررہے ہیں اور یہ کہ اب انہیں آرام دینا ضروری ہے ۔اعصاب اتنا آرام لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں جو ان کے لیے ضروری ہے ۔اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو طبیعت اچاٹ ہونے لگتی ہے۔کسی کام میں جی نہیں لگتا اور ذہنی ودماغی صلاحتیں متاثر ہونے لگتی ہیں۔
اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس تھکن سے کیسے محفوظ رہا جا سکتاہے۔لگاتا ر کام کرنا اگر کسی کی مجبوری ہے پھر بھی ضروری ہے کہ اپنے دماغ کے آرام کا خاص خیال رکھا جائے۔دن میں کسی بھی وقت کم از کم پندرہ منٹ کے لیے سکون سے لیٹ جائیں یا کر سی پر نیم دراز ہو کر آنکھیں موندلیں اور دماغ کو خالی چھوڑ دیں یا ان چیزوں کا تصور کریں جن سے سکون ملتا ہو۔تھکاوٹ کے لمحات میں تازہ جوس پئیں اور اس میں چٹکی بھر دار چینی کا پاؤڈر شامل کر لیں۔اس سے نئی طاقت اور توانائی کا احساس ہو گا ۔سیب کے جوس کا روزانہ استعمال بھی جسم ودماغ کو پر سکون رکھتاہے۔
غذا کو متوازن بنائیں۔خیال رکھیں کہ غذا میں میگنیشیم کیلشیم،وٹامن بی،پوٹاشیم،زنک،سیلیم وغیرہ موجود ہوں۔ماہرین کے مطابق یہ اجزاء جسم کو چاق وچوبند اور اعصابی نظام کو د رستر کھتے ہیں۔ناشتہ متوازن کریں ۔کبھی بھی بغیر ناشتہ کے گھر سے باہر روز مرہ کی سر گرمیاں انجام دینے کے لیے نہ نکلیں۔دودھ ،دہی ،کیلا،جوس ،دلیہ اور انڈا ناشتے کا حصہ ہونا چاہیے۔روزانہ کچھ وقت قدرتی ماحول میں پودوں اور پھولوں کے ساتھ گزاریئے۔ایک جاپانی تحقیق میں کہاگیا ہے․․․․
”کہ مناظر فطرت میں گزارے ہوئے لمحات جسم و دماغ کی تھکن کو دور کر دیتے ہیں۔“
پر سکون اور آرام دہ نیند جسمانی کار کردگی کے لیے اہم ہے ،اس لیے روزانہ رات کا کھانا سونے سے دوتین گھنٹے قبل کھائیں۔بستر پر لیٹنے سے ایک گھنٹہ پہلے چائے یا کافی نہ پئیں۔اعصاب وچہرہ کے عضلات خون کی شریانوں کے لیے معالجین مسکرانے اور ہنسنے کو بہترین ورزش قرار دیتے ہیں۔جب بھی ذہن پر دباؤ ہو،اعصاب کشیدہ محسوس ہورہے ہوں تو کوئی پر مزاح کتاب یا ڈرامہ دیکھیں اور جی کھول کر مسکرائیں۔اس سے عضلات کی سختی بھی دور ہو گی اور ذہنی طور آپ خود کو پر سکون بھی محسوس کریں گے۔
کسی مسئلے میں مبتلا ہونے سے ذہن پر منفی دباؤ پڑتا ہے ،جس کے نتیجے میں جسم بھی مضحل ہو جاتا ہے ۔ایسے میں کسی خالی کمرہ میں لائٹیں بند کر کے بستر یا کرسی پر نیم دراز ہوجائیں اور زیر لب اپنا مسئلہ دہرائیں۔آواز اتنی بلند رکھیں کہ با آسانی سنائی دے۔اس عمل سے ذہنی دباؤ سے نجات ملے گی اور جسم پر سکون ہو جائے گا۔دماغی طور پر اگر کسی مسئلے میں الجھے ہوئے ہوں تو ایسے وقت کھانا کھانے سے گریز کریں۔اور جب محسوس کریں کہ ذہنی تشویش دور ہو گئی ہو تب آرام سے کھانا کھائیں۔ذہنی وجذباتی دباؤ اور جلد بازی میں کھانا کھایا جائے تو اس وقت جسم کے اندرونی نظام میں ہونے والی اُتھل ،پتھل کے باعث خوراک ہضم نہیں ہو پاتی ہے اور یوں یہ بد ہضمی اورتیزابیت کا سبب بنتی ہے۔اعصابی اور جسمانی تھکن کے لیے ورزش بہت مفید ہے۔ایک تحقیق میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے روزانہ تیس منٹ تک جسمانی ورزش کرتے ہیں، ذہنی دباؤ میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔
اعصابی اور جسمانی تھکن کے سلسلے میں درج ذیل چند مفید ورزشیں جو کہ دفتری اور گھریلو تھکن میں کمی لا سکتی ہیں۔گھر یا دفتر کے دروازے کے بالکل درمیان میں کھڑے ہو جائیے پاؤں آپس میں ملے ہوئے ہوں ،دونوں ہاتھوں کو کندھوں کی اونچائی کے برابر دروازے کے فریم پر رکھ کر انہیں زور سے دبائیے اور دس تک گنیے پھر دباؤ ختم کردیں اور اس کے بعد دوبارہ یہ ہی عمل دہرائیں۔پھر دروازے کے فریم یعنی چوکھٹ جو کہ لکڑی کی بھی ہو سکتی ہے اور لوہے کی بھی ،دونوں ہاتھ اس پر مضبوط سے رکھ لیجے اور اپنے جسم کو آہستگی سے آگے کی طرف جھکائیے اس بات کا خیال رہے کہ پیٹ اندر کی جانب ہو اور پاؤں زمین سے اٹھنے نہیں چاہیں اس طرح جسم میں اور ٹانگوں کے عقبی حصے میں کھنچاؤ محسوس ہو گا۔
اس حالت میں دس تک گنیے۔پھر پہلی حالت میں آجائیے اب پھر دروازے کے درمیان کھڑے ہوں اور انگلیوں سے دروازے کی چوکھٹ کو سامنے سے پکڑ لیجیے پھر پیچھے کی طرف خود کو آہستگی سے لے جائیے،ٹانگیں سیدھی ہوں اور وزن ایڑھوں پر ہونا چاہیے۔
ایسا کرتے وقت سانس خارج کیجیے پیٹ کے عضلات خود بخود سکر جائیں گے اور کندھوں میں بھی کھنچاؤ محسوس ہو گا۔اس حالت میں دس تک گنیے۔اب پہلی حالت میں واپس آجائیں اور پوزیشن یعنی رخ تبدیل کر لیں۔پاؤں اسی طرح دروازے کے درمیان جڑے ہونے چاہیں۔پشت دروازے یا دیوار پر لگی ہونی چاہیے۔ہاتھ آگے کو پھیلا کر چوکھٹ کو پکڑ لیں اور آگے کی طرف جھکیں ۔سانس خارج کریں،پیٹ کو اندر لے جائیں اور سر کو دونوں بازؤں کے درمیان لٹکادیں۔اس پوزیشن میں پانچ سیکنڈ تک رہیں پشت میں تناؤ محسوس کریں۔گھٹنوں کو تھوڑا سا خم دینے میں کوئی حرج نہیں۔اس حالت میں دس گنیے،پھر اپنی کمر کو دیوار سے دباتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو نیچے جھکائیے۔
پہلی پوزیشن پر آتے ہوئے دروازے کے درمیان اس طرح کھڑے ہو جائے کہ پاؤں چوکھٹ کو چھور ہے ہوں پھر کندھوں کے لیول پر چوکھٹ کو اس طرح گرفت میں لیجیے کہ دایاں ہاتھ چوکھٹ کی بائیں جانب کو اور بایاں ہاتھ چوکھٹ کی دائیں جانب کو پکڑے ہوئے ہو۔اس حالت میں دونوں ہاتھوں سے اس طرح زور لگائیے جیسے اس چوکھٹ کو طاقت سے اکھاڑ دینا چاہتے ہوں۔اس حالت میں دس تک گنیے اور تین مرتبہ یہ عمل کیجیے۔یہ ورزش جسم کے ایسے مخصوص مسلز کو حرکت میں لائے گی جن کی کارکردگی کم ہوجانے سے انسان جسمانی طور پر کمزوری پژمردگی اور کاہلی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ذہنی طور پر پژمردگی اور مایوسی اس پر غلبہ پالیتی ہے ۔اس ورزش سے جسم کو نئی توانائی اور نئی ہمت محسوس ہو گی۔
اعصابی اور جسمانی تھکن کی ایک اور مختصر اور مفید مشق درج ذیل ہے۔
فرش پر اکڑوں بیٹھ جائیے گھٹنے خمدار ہوں سر کو گھٹنوں سے لگائیے اور گھٹنے کو بانہوں کے حصار میں لے لیجیے پھر اس پوزیشن میں جبکہ گھٹنے بانہوں کی گرفت میں رہیں آگے اور پیچھے حرکت کیجیے فرش کی جگہ نرم ہو نی چاہیے اس طرح کئی مرتبہ حرکت کیجیے اس سے تھکن دور ہو گی۔جسم کو توانا رکھنے ،سستی،کاہلی،تھکن اور بیزاری سے دور رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اعصابی بے چینی اور تھکن سے خود کو دور رکھیں۔جسمانی اور دماغی صحت کا خیال رکھیں ۔انہیں آرام کا پورا موقع دیں ۔ایک ماہر صحت اس بات کو یوں کہتا ہے۔
”اگر کسی نے خود پر قابو پا لیا تو اس نے ایک بڑی سلطنت فتح کرلی اور کوئی شخص اپنی خواہشات کا غلام ہو گیا تو وہ ناکامی کے گڑھے میں گر گیا۔“