خواتین ڈر پوک کیوں ہوتی ہیں؟

فوزیہ سعید
بہت دفعہ مجھ سے یہ سوال کیا گیا ۔کہ آپ ماہر نفسیات ہیں یہ بتائیں ۔خواتین ڈرپوک کیوں ہوتی ہیں؟
کیا خواتین کی ترقی تحفظ کے بغیر ممکن ہے؟عورت عام طور پر صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں
سے محروم رہتی ہے۔ملازمت اور تربیت کے مواقع بھی کم ملتے ہیں۔معاشرے کی سر گرمیوں میں
کھل کر حصہ نہیں لے سکتی ۔اس طرح تجربات سے بھی محروم رہتی ہے۔
یہی کمی آگے چل کر اس کو مردوں سے ایک قدم پیچھے کر دیتی ہے۔

دراصل کسی بھی ڈریا خوف کی بنیادی وجہ کا تعلق اس کے ماضی سے ہوتا ہے۔جب پیدائیشی طور پر
ماں کا رویہ لڑکے اور لڑکی میں ایک جیسا نہیں ہوتا۔تو لڑکی ڈرپوک ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
جب کے وہBiologically مرد سے زیادہ برداشت رکھتی ہے۔اگرکوئی عورت نو ماہ تک کسی بچے
کو پیدا کرنے کی تکلیف برداشت کر سکتی ہے ۔

تو وہ باقی کے مشکل کام بھی انجام دے سکتی ہے۔
قائداعظم نے فرمایا”عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں حصہ لینا چاہیے“۔
مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے اسلامی ملک میں عورتوں کو عدم تحفظ اور دہرے احساس کا سامنا ہے۔
اور روز بروز اس میں اضافہ ہورہا ہے۔جیسے گھر سے باہر خوف وہراس ،سڑکوں ،بسوں میں
عورتوں پر فقرے بازی اور ملازمت کی جگہ پر ہراساں کرنا۔
بے حرتمی۔خاندانی دشمنی کا انتقام لینے کے لیے عورتوں سے زیادتی کرنا۔مثلاًکاروکاری۔سیاہ
کاری۔عورتوں پر ہی آئے دن چولہے پھٹے ہیں ۔عورت ہی ناموس کے نام پر ماری جاتی ہے وغیر۔

سماجی تشدد کی یہ مختلف قسمیں پورے معاشرے کی سطح پر عورتوں اورلڑکیوں کو خوف وہراس
میں مبتلا رکھتی ہے ۔جس سے ان میں عدم تحفظ کا احساس شدت سے بڑھ جاتا ہے ۔والدین اور گھر
والے اکثر شہر سے باہر تعلیم حاصل کرنے کے لئے مردوں کو با آسانی جانے دیتے ہیں۔

جبکہ پڑھے لکھے والدین بھی لڑکی کو با آسانی گھر سے دور جانے نہیں دیتے۔حکومت نے
عورتوں کے حقوق برابری اور با احتیار بنانے کے لئے بہت کام کیا ہے۔حدود آرڈینینس کے
اندر تبدیلی لا کر اس قانون کو عورتوں کے خلاف استعمال کرنے سے روکا ہے۔
تحریک نسواں بل پر پہلی بار سیاسی طور پر عورت کو لوکل باڈی میں 33فیصد صوبائی
اور قومی اور سینٹ میں 17فیصد نمائندگی دے کر عورتوں کو ملکی معاملات میں شرکت کاموقع فراہم کیا گیا۔

گورنمنٹ کے اداروں میں دس فیصد عورتوں کا ملازمت کا کوٹہ مقرر کیا گیا۔عورتوں
کے لئے شیلٹر ہوم اور کےئر سینٹر ہر ضلع میں کھولے گئے ۔دیہات کی عورتوں کو
اقتصادی طور پر با احتیار کرنے کے لئے جفاکشی پروگرام شروع کیا گیا۔چھوٹے قرضے
پروگرام کے ذریعے عورتوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کا موقع فراہم کیا گیا ۔مگر ان کاموں
نے بھی عورتوں کو تشدد سے پاک معاشرہ نہیں دیا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں پاکستان کا معاشرہ اٹھارویں صدی
میں جی رہا ہے۔پاکستان میں جا گیردار انہ ذہنیت ،مذہبی انتہا پسندی،قبائلی رسم ورواج عورت
کو مردکی ملکیت سمجھتا ہے ایک انسان نہیں۔
جب تک یہ سوچ تبدیل نہیں ہو گی ہمارا معاشرہ عورتوں کو برابر کا حق دینے کو تیار نہیں ہو
گا۔ہمارا مذہب نہ صرف عورتوں کا احترام سکھا تا ہے۔

بلکہ عورت اور مرد کے کسی قسم کا امتیاز نہیں پیدا کرتا ۔کوئی جنگ یا ترقی اس وقت تک ممکن نہیں
جب تک خواتین اس میں شامل نہ ہوں۔1973ء کے آئین میں عورت اور مرد کو برابری کا حق دیتا ہے
۔جس کی بنیاد پر کوئی قانون امتیازی نہیں ہو سکتا۔مگر عموماً دیکھا یہی گیا ہے ۔مذہبی انتہا پسند گروہ
،جاگیردار اور قبائل مل کر عورت کو تعلیم نہ دے کر اس کی صحت کا خیال نہ رکھ کر رسم ورواج
کی بھینٹ چڑھا کر ،گھریلو تشدد ،قرآن سے شادی ،ونی ،سوارہ کی رسم ،وٹہ سٹہ کی شادی ،کوڑے
مارنے اور غیرت کے نام پر قتل حق سمجھتے ہیں۔

اسی لیے اس سال پہلے 3ماہ میں ہزاروں عورتوں کو پاکستان میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔مگر افسوس
ہمارا معاشرہ اس کو تشدد نہیں سمجھتا ۔یا پھر ہمارا معاشرہ بے حس ہے۔خواتین پر جسمانی اور
ذہنی دباؤ تشدد کی آمدگی کررہے ہیں۔ اسی طرح خواتین معاشی خوشحالی اور معاشرتی ترقی میں
شرکت سے محروم ہو جاتی ہے۔
دکھ تو یہ ہے ہمارے ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور یاایجنڈے میں اس ظلم کے
خلاف کچھ نہیں ہوتا۔
اور نہ ہی یہ سیاسی نمائندے نمائشی دوروں ،جزباتی تقریروں اور وعدوں کے علاوہ کوئی
با معنی قدم اٹھانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔کسی بھی پارٹی کی ترجیحات میں عورتوں کے خلاف
تشدد،انکا تحفظ شامل نہیں ہوتا۔
قائدا عظم نے فرمایا”آدھی آبادی کو گھروں میں بند کر نا ظلم ہے۔“
حدیث ہے علم حاصل کرو ،چاہے تم کو چین جانا پڑے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
آج کی عورت ،فوج ،پولیس ،انجینئرنگ میڈیکل ،ائر پورٹ ،محکمہ تعلیم غرض ہر جگہ اپنی
اہمیت منوا چکی ہے۔اس کے باوجود وہ ڈرپوک کیوں ہے ؟
مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔
مردوں کا رویہ۔
عورتوں کا رویہ جن میں ماں ،دادی ،نانی ،سب مل کر اس طرح تربیت کرتی ہیں ،کہ لڑکا شیر
بنا کر اور لڑکی کو بزدل بکری بنا کر پا لتی ہیں۔
طلاق کا حق عام طور پر مرد کے پاس ہوتا ہے اس سے بھی عورت خوفزدہ رہتی ہے۔

حکومت کی بے حسی۔
قانون بنانے والے اداروں کا برارویہ۔
دفتری ماحول میں عورتوں کا ہراساں کرنا۔
کالجوں اور یونیورسٹی میں استادوں کا رویہ۔
جنسی امتیاز Gender Discrimination
آزادی رائے کا فقدان۔
قوت فیصلہ میں کمی۔
ماہرین نفسیات ہونے کے ناطے میں کہہ سکتی ہوں اس خوف کو کم کیا جا سکتا ہے مگر ختم نہیں کیا
جا سکتا کیونکہ جو تربیت آپ کو بچپن میں والدہ کی طرف سے ملتی ہے اس کا اثر تازندگی رہتا ہے۔

لڑکی جوان ہو جائے تو باپ پریشان ہو جاتا ہے۔جس سے وہ بھی خوف زدہ رہنے لگتی۔لڑکا جوان ہو
جائے تو ماں باپ پھولے نہیں سماتے۔عورت کے اندر کا خوف یہ چیزیں ختم نہیں ہونے دیتا۔وہ ترقی
کر کے کسی بھی عہدے پر پہنچ جاتی ہے ۔مگرا س خوف سے نظریں نہیں ملا پاتی۔یہی چیزاسے
ڈرائے رکھتی ہے ۔اس کمزوری سے ہی مرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔حل ۔اس کا حل نکل سکتا ہے اگر گھر
والے شروع سے تربیت میں فرق نہ رکھیں۔
حکومت کی حکمت علمی اس میں بہتر کر دار ادا کرسکتی ہے ۔پاکستان کی 50فیصد آبادی سے کام لیا
جا سکتا ہے۔اگر ان دونوں کی منصوبہ بندی نہ صرف لکھنے کی حد تک ہو ،بلکہ عملی طور پر قانون
سازی کی جائے ۔تو ملک ترقی کر سکتا ہے ۔مگر المیہ یہ ہے قانون بنا بھی دیے جائیں توان پر عمل نہیں کیا جاتا۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں