لاہور ہائیکورٹ بابراعظم کیخلاف مقدمہ

لاہور ہائی کورٹ نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم کیخلاف اندراج مقدمہ کا سیشن کورٹ کا حکم معطل کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ ایس ایچ او اوردرخواست گزار حامزہ مختار سے تحریری جواب مانگ لیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے بابراعظم کی جانب سے اندراج مقدمے کی درخواست پر ماتحت عدالت کے احکامات کو چیلنج کرنے کی درخواست پر سماعت کی ۔
بابراعظم کے وکیل ایڈووکیٹ حارث عظمت نے نشاندہی کی کہ سیشن عدالت نے حقائق کے برعکس قومی ٹیم کے کپتان کیخلاف مقدمہ درج کرنیکا حکم دیا، حامزہ مختار نے بابراعظم کو بلیک میل کرنے کے لیے بے بیناد درخواست دائر کی تھی۔ ایڈووکیٹ حارث عظمت نے کہا کہ حامزہ مختار نے 2018ء میں ہی بابراعظم سے صلح کرلی تھی جس کے بعد معاملہ ختم ہو گیا تھا، پولیس نے بھی دھمکی آمیز کالیں موصول ہونے کے حامزہ کے دعوے پر منفی رپورٹ پیش کی لیکن سیشن عدالت نے بغیر شواہد بابر اعظم کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔
ایڈووکیٹ حارث عظمت نے عدالت عالیہ سے استدعا کی کہ بابراعظم کے خلاف اندراج مقدمہ کے حکم پرعملدرآمد روکنے کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کے کپتان کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی کارروائی غیر قانونی قرار دیکر کالعدم کی جائے۔ لاہور ہائیکورٹ نے بابراعظم کے وکیل کی درخواست منظور کرتے ہوئے مقدمے کے اندراج کا سیشن کورٹ کا حکم معطل کردیا۔ عدالت نے حامزہ مختار کے ساتھ ساتھ متعلقہ ایس ایچ او کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلی سماعت پر تحریری جواب طلب کرلیا، درخواست کی مزید سماعت 8 فروری کو ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور کی سیشن کورٹ نے نصیرآباد پولیس کو قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم کیخلاف فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 154 کے تحت خاتون حامزہ مختار کا بیان قلمبند کرنے اور قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا تھا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد نعیم نے خاتون کے ذریعہ دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ ملزم پر اسقاط حمل اور شادی کی جھوٹی یقین دہانی پر دھوکہ دہی سے جسمانی تعلق جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، درخواست گزار کی درخواست کو بغور پڑھنے سے بادی النظر میں قابل سزا جرم کا کمیشن بنایا گیا۔
جج نے نصیر آباد سٹیشن کے ہاؤس آفیسر کو ہدایت کی کہ وہ خاتون کا بیان فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 154 کے تحت درج کریں اور قانون کے مطابق کارروائی آگ بڑھائیں ، جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس رپورٹ درخواست کے حقائق سے یکسر مختلف ہے۔ حامزہ مختار نے درخواست میں بابراعظم پر الزامات عائد کیے تھے کہ انہوں نے جنسی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے شادی کے جھوٹے وعدے کیے، انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ 2015ء میں وہ بابراعظم کے بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئی تھیں لیکن انہیں اسقاط حمل کرونا پڑا تھا۔
کرکٹر کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے پہلے بھی یہی الزامات عائد کرنے والی ایک درخواست واپس لے لی تھی اور متعلقہ تھانے میں بیان حلفی جمع کرایا تھا، انہوں نے حامزہ مختیار کے اسقاط حمل کے الزام کو بھی متنازع قرار دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں